Saturday, 30 January 2021

Najmeen and Alam e Roya in Tehreem's Perception




 


السلام علیکم میرے قارئین امید کرتی ہوں آپ سب خیر   و عافیت سے ہوں گے۔الحمد للہ اللہ کے فضل و کرم سے کچھ  دن پہلے عالمِ رویا مکمل ہو چکا ہے۔اِس کے آغاز میں مجھ سے آپ سب نے نجمین کے متعلق بہت سے سوالات پوچھے تھے مگر عالمِ رویا پر کام کرتے ہوئے میں اتنی مصروف تھی کہ میرے لیے کسی صورت وقت نکالنا بہت ہی مشکل تھا۔۔انشاء اللہ آج میں آپ کے پوچھے  ہوئے تمام تکنیکی سوالات کے جواب دُوں گی لیکن سب سے پہلے میں اُن تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنہوں نے اِس ناول کو پایہ تکمیل تک پہنچانے  میں   میرا ساتھ دیا ،میری حمایت کی اور  میری پذیرائی کی۔

نجمین اور عالمِ رویا میں میں نے افلاطون اور ارسطو کا فلسفہ استعمال کیا ہے نجمین میں میرا موقف ارسطو تھا لیکن اُس میں افلاطون کی tinges تھیں۔۔ارسطو کا فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دنیا میں poetic justice ہے اور کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔۔جبکہ  عالمِ رویا میں میں نے افلاطون کا فلسفہ استعمال کیا ہے  اور اُس میں ارسطو کی جھلک ہے۔۔

جس نے فلسفہ نہیں پڑھا اُس کے لیے میری یہ بات پر انا للہ وانا الیہ راجعون۔

چلیں پہلے بات کرتے ہیں نجمین کی۔

اکثر لوگ مجھ سے  اِس کے ٹائٹل کے متعلق  پوچھتے ہیں کہ اِس کا مطلب کیا ہے ؟ ویسے میں یہ جواب ناول میں دے چکی ہوں لیکن چونکہ یہ ٹائٹل ہے اور ٹائٹل سے ہی ایک انسان پر کتاب کا  پہلا  تاثر پڑتا ہے تو میں اِس کا جواب دوں گی۔۔

نجمین کا مطلب ہے دو ستارے نجم یعنی ستارہ ین دو لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔۔

اب آتے ہیں خاص خاص سوالات کی طرف۔




سوال نمبر ایک: 

دُعا نے اپنی ہاؤس جاب کے دوران  خضر سے مریض  کی موت کا بہانہ بنا کر پیسے مانگے لیکن اُنہیں اپنے ہی اکاؤنٹ  میں  ٹرانسفر کر دیا  ایسا کیوں ؟ 

دوسرا سوال  کیا دُعا سیلف ابسیسڈ تھی کیا ایسا ہونا اچھی بات ہے ؟

جواب:  اِس کا جواب اُس کی پچھلی ایپی سوڈ میں تھا۔اور وہ پیسے کیوں مانگے تھے کیوں بہانہ کیا تھا کیا وجہ تھی اِس کا جواب بھی  نجمین میں  تھا۔۔آپ کے دوسرے  سوال کا جواب ہے۔۔  بلفرض آپ کہیں میں پاگل ہوں ! کیا کہنے سے آپ پاگل ہو جائیں گے ؟ نہیں نا ؟ دُعا کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا وہ اپنے لیے اسٹینڈ لیتی تھی اور بعض دفعہ بہت سخت قسم کا اسٹینڈ لیتی تھی جو کہ میرےخیال میں ہر لڑکی کو اپنے لیے لینا چاہیے ۔۔۔

 

سوال نمبر دو:

نجمین میں آپ نے گھر میں پالتو  کتے کو رکھنا نا پسند کیا تھا لیکن اختتام میں خضر نے اپنے گھر میں کتا رکھ لیا ایسا کیوں ؟ 

جواب: پالتو کتے اور واچ ڈاگ میں فرق ہوتا ہے۔۔نگرانی کے لیے کتا رکھ سکتے ہیں۔۔

سوال نمبر تین:

کیا اُستاد لقمان کا کریکٹر استاد نعمان سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے ؟ 

جواب: آپ کہہ سکتے ہیں  اگر کریکٹر اسکیچ کی بات کی جائے   یا کچھ کچھ dimensions سے،جیسے اُن کے پڑھانے کا طریقہ ہو گیا ۔میں نے نجمین میں Arabic Linguistics پر زور دیا ہے  یعنی ورڈ بائی ورڈ عربی زبان کے لفظ کا معنی نکال کر   اُس کا مطالعہ کرنا۔

 

سوال نمبر چار:

خضر نے بے چلرز  اور  ایم۔اے  کی دو سالہ ڈگری لی جب کہ ایچ۔ای۔سی نے   دو سالہ ڈگری 2018 سے ناقابلِ قبول قرار دے دی  تھی۔

جواب: سوتی ہوئی عوام کو خبر کر دی جائے HEC نے دو سالہ ڈگری کو 2022 تک قبول کرنے کی اجازت دے دی ہے اور 2018 کے بعد بھی   Educational institutions   میں دو سالہ ڈگری پروگرامز  جاری  ہیں ۔۔۔

سوال نمبر پانچ:

نجمین میں بی۔ڈی۔ایس  اور  ایم۔بی۔بی۔ایس کے طلباء کا ایک  monologue تھا اُس میں  آپ نے  دونوں پروگرام کے اسٹوڈنٹس کے لئے پانچ سال  کی بات  کی جبکہ بی۔ڈی۔ایس چار سالہ پروگرام  ہے اور پھر اُس کے ساتھ ایک سال انٹرن شپ !

جواب:پہلی بات اِس کا جواب بھی نجمین میں ہے۔۔دوسری بات  چار سالہ بی۔ڈی۔ایس پاکستان اور بھارت میں ہے پاکستان میں کافی عرصے سے اِس کی مدت بڑھانے کی جدو جہد چل رہی ہے اور PMDC اور HEC نے نئے نصاب کی تجویز دی ہوئی ہے۔۔امریکہ اور بعض ممالک میں یہ چار سالہ ہے لیکن امریکہ میں بھی اِس کی شرط ہے کہ آپ سیدھا بارہویں کے بعد ایپلائی نہیں کر سکتے  اور  آپ کو سولہا سال کی تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے جبکہ انگلستان میں یہ  پانچ سال کا ہے اور ہم برٹش سسٹم کو ہی فالو کرتے ہیں اِس لیے امید ہے کہ جلد یہ پانچ سالہ ہو جائے گا اور صرف انگلستان میں نہیں اور بہت سے ممالک میں یہ ایم۔بی۔بی۔ایس کی طرح پانچ سالہ ہی ہے ۔اُس monologue میں میں نے جینرلی سب کی طرف سے بات کی ہے  تو duration غلط نہیں ہے بی۔ڈی۔ایس کورس  پانچ سال کا بھی ہے۔۔

 

سوال نمبر چھ:

جواب:خضر کی پی۔ایس۔ایل ٹیم کون سی تھی ؟

میں نے ناول میں نہیں بتائی تو اب کیوں بتاؤں گی ؟ میں نہیں بتاؤں گی !"

 

سوال نمبر سات:

آپ کا نجمین لکھنے کا کیا مقصد تھا ؟ 

جواب:اتنا لمبا ناول پڑھنے کے بعد بھی مقصد پوچھیں گے تو پٹھانوں والا دماغ خراب ہو گا !!  مختصراً

criticism on so called super intellectuals !

سوال نمبر آٹھ:

آپ نے جلیل سومرو کا کوئی انجام کیوں نہیں دکھایا ؟

جواب:مجھے بتائیں کیا حقیقت میں آپ نے ایسے لوگوں کا عبرت ناک انجام ہوتے ہوئے  دیکھا ہے ؟ کیونکہ میں نے تو نہیں دیکھا۔

اب بات کرتے ہیں عالمِ رویا کی۔۔

سوال نمبر نو:

آپ نے ایک جگہ پر  عالمِ رویا  میں راضی نامے کے ہونے کو  غلط  کہا اور دوسری جگہ آپ نے اِسے فیور کیا ایسا کیوں ؟

جواب:

ہر چیز کے pros اور cons ہوتے ہیں۔صلح کروانے کو اور راضی نامے کو ہمارے دین میں پسند کیا گیا ہے مگر عدالتیں مجرموں کے صلح نامے پر ٹھپے لگوانے کے لیے کام نہیں کرتیں راضی نامے کی ایک رلیف نے عدالتوں اور judiciary کا مذاق بنا دیا ہے۔۔  ہمارے ملک میں اِس کا  غلط استعمال ہوتا ہے اِس کی سب سے واضح مثال غیرت کے نام پر قتل اور ریپ کیسز میں ہونے والے راضی نامے ہیں۔

سوال نمبر دس:

عالمِ رویا ایک حقیقت پر مبنی content ہے پھر اُس کا نام عالمِ رویا کیوں ؟

جواب: کیونکہ عالمِ رویا کی interpretation میری لغت میں آپ لوگوں  والی  نہیں ہے اور اِس کی وضاحت اُس کی آخری دو قسطیں کر دیتی ہیں کہ میرے لیے عالمِ رویا کیا ہے !

سوال نمبر گیارہ:

عالمِ رویا کافی طویل ناول تھا !

جواب: بے شک کافی طویل تھا۔ظاہر ہے اگر بلاگرز  ایک پیچ پر  کافی اسپیس کے استعمال کے ساتھ صرف چار سے چھ لائنز کو رکھیں تو وہ کافی طویل ہی لگے گا۔۔ ہم نے   عالمِ رویا  کو اپنے بلاگ پر   پکچر فارم میں پوسٹ کیا ہے ایک ہزار اور پانچ سو  کچھ صفحات ہیں اور بہت سے قارئین نے وہیں سے پڑھنا شروع کیا ہے۔۔ اور جو لوگ ہم سے گِلہ کرتے ہیں کہ ہم اِس ناول کو پڑھنا چاہتے ہیں پر یہ بہت طویل ہے  تو اُن کے لیے ایک مختصر سا جواب ہے جو لوگ seasons والے شو دیکھ سکتے ہیں وہ ایک طویل ناول بھی پڑھ سکتے ہیں !!

 

سوال نمبر بارہ:

آپ کو نہیں لگتا ہاجرہ بہت blunt تھی اور اُس کی دو سائیڈز بھی تھیں ؟

جواب: 

ہاجرہ  نے عالمِ رویا میں  معاشرے سے وہ وہ باتیں کی ہیں جو ہر عورت کرنا چاہتی ہے۔رہی بات دو سائیڈز کی   کیا آپ اِس بات کی ضمانت دیتے ہیں آپ اندر سے بھی وہ ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں ؟ آپ کیا   کوئی انسان بھی اِس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا !

سوال نمبر تیرہ:

سولِسٹر یا بیرسٹر ؟

جواب:لوگ ہمیشہ پرفامنس پسند کرتے ہیں بی۔ٹی۔ایس ہر کوئی دیکھنا پسند نہیں کرتا لہٰذا فارشیور بیرسٹر !

سوال نمبر چودہ:

کرمنل  Malpracticeکیسز  ہونا کافی مشکل ہے لیکن پھر بھی آپ نے اُسے عالمِ رویا میں دکھایا اِس کی  کوئی خاص وجہ ؟

جواب:

"اُس وقت پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نہیں تھی اور اُس سے پہلے پولیس    ڈاکٹرز پر  ۳۰۲ کی ایف۔آئی۔آر  آرام سے  کاٹ دیا کرتی تھی ، اگر ایسے کیسز ہو بھی جاتے تو عدالت میں مجرمانہ نیت ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے اور اب تو medical negligence کو بحیثیت کرمنل کیس پیش کرنا  مزید مشکل ہے !

سوال نمبر پندرہ:

رجب نے ترکیوں اور عربوں کے درمیان کی وضاحت پیش کی تھی لیکن ترکوں نے تو سرزمین حجاز پر حکومت کی  ہوئی ہے ۔

جواب:انگریزوں نے بھی تو برصغیر پر حکومت کی  تھی کیا اُس سے ہم انگریز بن گئے ؟  وہ الگ بات ہے ہم گورا کمپلیکس میں مبتلا ہیں ! 

 

سوال نمبر سولہا:

"آپ  نے کیزیا کا ری۔ٹرائل پورا نہیں دکھایا !"

جواب: کیونکہ میں اُس کا پہلا ٹرائل فلیش  بیک تکنیک اور stream of consciousness کے ذریعے دکھا چکی تھی۔بار بار دہرانا  غیر ضروری  ،اضافی  اور وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔۔اِس لئے میں نے وہی سینز دکھائے جو ضروری تھے۔۔۔اِسی طرح میں نے کاربن مانو آکسائیڈ مرڈر کیس میں  expertsپر جرح دکھائی پر اولڈ بیلی لندن کے ٹرائل میں نہیں دکھائی ۔

سوال نمبر سترہ:

آپ نے سردار کے لیے اُن کا الفظ استعمال کیا جبکہ وہ وِلن تھے ! کوئی  خاص وجہ ؟ 

جواب: سردار ایک وِلن تھے پر وہ وِکٹم تھے اور یہ ایک writing تکنیک ہے کبھی بھی اپنے کسی کردار سے نفرت نہ کریں کیونکہ اگر آپ تعصب میں آ گئے  تو آپ کی بصر اور بصیرت دونوں دھندلا جائیں  گی۔۔ایک اور نقاد کا کہنا ہے اپنی تکلیف سے کوئی نئی چیز develop کریں فکشن  میں  آٹو بائیوگرافک  element ہوتا ہے لیکن وہ ہوبہو  حقیت جیسا نہیں ہونا چاہیے تو نو پرسنل فیلنگز !!

سوال نمبر اٹھارہ:

بیرسٹر اگر سب سولِسٹر کے ذریعے کرتا ہے تو پھر انگلستان میں وکیل کیسے زیادہ کما سکتا ہے ؟

جواب: نمبر ایک: وہاں  پاکستان  کی طرح غربت نہیں۔۔ نمبر دو :کیس کو اچھے طریقے سے ہر کوئی پریزنٹ نہیں کر سکتا باتیں سب کرتے ہیں پر بہترین مبصر، مقرر اور مباحث سب نہیں ہوتے۔عدالت میں جج صاحب ایسے ایسے سوال ڈال دیتے ہیں کہ آمد کا ہونا اور جواب کو ٹیکل کرنا بڑا ضروری ہوتا  ہے   اور بیرسٹرز کو اِس کی ٹریننگ دی جاتی ہے  تبھی پاکستان میں بھی  بار ایٹ لاء کی بھی بہت اہمیت ہے !

سوال نمبر اُنیس:

کاربن مانو آکسائیڈ کیس  suicidal     تھا  اور  شاذ نے کہا ایسی اموات اُنیسویں صدی کی ابتدا میں ہوتی تھیں۔

جواب:

شاذ نے اپنے پریزنٹ وقت کے ساتھ یہ بات کہی تھی لیکن ایسی اموات ۲۰۰۰ تک ہوتی رہی ہیں یہاں تک ابھی بھی کبھی کبھار   ایسی  اموات ہوتی ہیں۔۔۔

سوال نمبر بیس:

ہاجرہ صلاح الدین صاحب کی گرفتاری پر  شاذ کو لاہور جانے کا کیوں  کہہ رہی  تھی ؟

جواب: پولیس افیسروں کے خلاف کمپلین کے لیے، آج کے زمانے میں تو ہم  گھر بیٹھے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کے ذریعے کمپلین کر لیتے ہیں لیکن پہلے جانا پڑتا تھا اور پیپر ورک بھی ہوتا تھا۔۔

سوال نمبر اِکیس:

مظہر وڑائچ  اُس وقت لیڈنگ پارٹی میں تھے تب کی لیڈنگ پارٹی بے نظیر بھٹو کی تھی،تو وہ وہ  عورتوں کے خلاف کیسے تھے ؟

جواب:

وہ لیڈنگ پارٹی میں تھے یہ ایک الگ  بات ہے وہ عورتوں کے خلاف تھے یہ الگ  بات ہے یہ اُس وقت کی typical patriarch سوچ تھی۔۔اِس معاشرے میں ایسے بھی مرد ہیں جو باہر  عورتوں کے ساتھ کام  کرتے ہیں لیکن اُنہیں اپنی عورتوں  کا کام کرنا پسند نہیں ہے مظہر وڑائچ بھی ایسے ہی مرد تھے۔۔۔

سوال نمبر بائیس:

ہاجرہ نے کیزیا اور زوہیب کی پہلی مدد کیوں نہیں کی ؟ جبکہ اُس نے کہا تھا وہ اُن کی مدد کرے گی ؟ دوسرا رات کے وقت عورت کو تھانے میں نہیں رکھ سکتے تو پولیس نے اُسے  تھانے میں کیسے رکھ لیا ؟

جواب: جب وہ اپنے گھر سے نکل رہی تھی تب اُسے کیس  کی سنجیدگی کے متعلق اندازہ نہیں تھا اور گواہ اور صورتحال کیزیا کے خلاف تھے، یہاں تک نجیب پہلوان کو بھی اُس پر یقین نہیں تھا۔ دوسرے سوال کا جواب سیدھا سا ہے پولیس والے قانون اور پروسیجر فالو کریں تو ایسا کبھی نہ ہو،یہ صرف فرضی کہانی تھی لیکن حقیت میں بھی   پاکستان میں ایسا  ہوتا  تھا  اور ابھی تک ہوتا ہے۔۔نائنٹیز میں عورتوں کے  حقوق کے لیے قانون بھی نافذ کیے گئے amendments بھی ہوئیں لیکن اُس کے باوجود عورتوں کو رات کے وقت تھانوں میں رکھا گیا اور اُن کے ساتھ جنسی زیادتیاں بھی ہوئیں۔۔۔

سوال نمبر  تئیس:

ہاجرہ اور شاذ کی اینڈنگ پاکستان میں بھی تو ہو سکتی تھی  آپ کو نہیں لگتا لندن کے سینز اضافی تھے ؟ 

جواب:

"پہلی بات۔۔ اگر ہم rational ہو کر بات کریں تو پاکستان میں شاذ کی اینڈنگ وہی بنتی تھی جو پیارے افضل کے افضل کی مگر چونکہ یہ عالمِ رویا تھا تو شاذ مر نہیں سکتا  تھا اور لندن میں  شاذ اور ہاجرہ  کا اختتام صرف یوں دکھا دینا کہ وہ ایسے ہی ہمیشہ خوش رہتے ہیں تو میرے لیے یہ کافی بچکانہ تھا۔عالمِ رویا بچوں کا ناول نہیں تھا یہ ایک میچور ناول تھا اِس لیے شاذ اور ہاجرہ کو ایک اور بن بری کرنی تھی۔۔۔دوسرا لندن کے سینز باہر کی دنیا اور پردیس کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں،میں نے لندن کے سینز کو مزین کر کے نہیں دکھایا کیونکہ میں یہ دکھانا چاہتی تھی کہ ہم پردیس کی زندگی میں کیسے رہتے ہیں کتنی محنت کرتے ہیں۔۔تیسری بات۔۔ میں ہاجرہ کے کردار کو اگر ایسے ہی چھوڑ دیتی تو ہاجر  کا کردار میرے لیے ایک  failure ہوتا۔۔چونکہ اُس کا تعلق مغرب سے تھا تو اُس کا تعلق ایک  Gametophobic  زمانے  سے تھا اور آج کی مشرقی لڑکی اُس کے حالات سے خود کو رلیٹ کر سکتی ہے لندن کے سینز اُس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھے اور اُن کے ذریعے اُس نے اپنی غلطیوں کو سدھارنا سیکھا تھا ۔۔

سوال نمبر چوبیس:

تہلیل کا کنسینٹ کیوں ضروری نہیں تھا ؟

جواب:وہ بالغ نہیں تھی اور  Kidnapping یعنی اغوا کے جرم میں عمر دیکھی جاتی ہے اور تہلیل مائنر تھی۔وہ جب اپنی  گارڈیئن کی نگرانی سے نکل گئی تو  وہ قانون کی نظر میں اغوا ہو چکی تھی۔۔

سوال نمبر چہبیس:

کیزیا نے ہاجرہ کو جیل میں beautician کے آنے کے متعلق بتایا تھا کیا واقعی ایسا ہوتا ہے ؟

جواب:

extreme hair growth کی ایک بیماری ہوتی ہے اور اُس میں بال اتنی تیزی سے آتے ہیں اور اتنے  موٹے اور  گھنے ہوتے ہیں کہ دیکھ کر بھی وحشت ہوتی ہے اور نہ ہی اُنہیں کوئی بھی آسانی سے اتار سکتا ہے۔اُس کے کہنے کا بالکل بھی مطلب یہ نہیں  تھا  کہ وہاں کوئی  فیشن شو چل رہا تھا !






سوال نمبر ستائیس:

زہرہ نے سردار کے وہاٹ کرائمز کا انکشاف اپنی خالہ کے ذریعے کیوں کروایا تھا ؟

جواب:

وہ سیاست میں تھیں لیڈنگ پارٹی میں تھیں اور تہلیل اور شاذ کے ذریعے میں نے ایک سین میں یہ بتایا تھا کہ اپوزیشن لیڈنگ پارٹی کو پریشان کر رہی  ہے۔۱۹۹۴ کے  پاکستان کے سیاسی حالات سے متاثر ہو کر لکھا گیا سین تھا۔اور وہ  ثبوت صرف سردار کے خلاف نہیں تھے کچھ سیاستدان کے بھی تھے۔

سوال نمبر اٹھائیس:

ثامر عبیدہ نے وزیر داخلیہ ہوتے ہوئے اپنے خادم کو اللیگل کیوں رکھا ؟

جواب:

وہ ایک دہشت گرد جماعت کا شریک تھا،اِس لئے یہ تو ظاہر ہے کہ اُس نے مالی معاملات کی وجہ سے تو اُسے اللیگل نہیں رکھا تھا۔۔

سوال نمبر اُنتیس:

جواب:

ہاجرہ کو کیسے اندازہ ہوا کہ شاذ عرب ملک  جانے والا  تھا   ؟

جواب:

جب وہ نجیب پہلوان سے ملنے گئی تھی تب اُسے  اِس بات کا اندازہ ہوا تھا کیونکہ تب اُنہوں نے رجب اور عبد التواب کے سردار کی حویلی جانے کے متعلق بات کی تھی۔۔

سوال نمبر تیس:

عالمِ رویا میں بہت سارے کردار تھے !

جواب: یہ سوال تو  نہیں ہے،لیکن میرے پاس اِس کا جواب ہے۔ارسطو کی تھیوری کے مطابق  اگر ایک بھی سین یا کردار کو نکال دیا جائے  اور دیکھا جائے کہ آپ کا پلاٹ چل سکتا ہے تو وہ کردار یا سین اضافی ہے اب آپ اِس تھیوری کے مطابق خود جائزہ لے لیں میرا لکھا کون سا سین اور کردار اضافی تھا۔

سوال نمبر اکتیس:

یہ  pathological jealousy کیا ہے ؟

جواب:

میاں یا بیوی کا ایک دوسرے پر شک ایسا شک جو کہ نفسیاتی بیماری کی صورتحال اختیار کر لے،آپ نے غور کیا ہو گا میں نے اِس قسم کی jealousy کو عالمِ رویا میں نا پسند کیا ہے۔کیونکہ ہمیں اب ایک میچور لیول پر آ کر کام کرنا چاہیے اور بچکانہ قسم کی jealousy سے اجتناب کرنا چاہیے۔جب  ہم اِن چیزوں  کو پیچھے چھوڑ دیں گے  تو کوئی نیا content بنائیں گے ورنہ پھر طلاق،شک، عورت کی ہتک عزت، تھپڑوں کی برسات اور بچے کا باپ کون ہے   جیسا مٹیریل ہی دیکھنے اور پڑھنے کو ملے گا !

سوال نمبر بتیس:

عالمِ رویا کو آپ نے بیسویں صدی پر کیوں لکھا ؟ 

جواب:

بڑی بڑی تبدیلیاں ایک لمحے میں نہیں آتیں،انہیں لے کر آنے میں  ایک  عرصہ لگ جاتا ہے  اور ایسی  تبدیلیاں مؤثر اور پائیدار  ہوتی ہیں۔عالمِ رویا میں میں نے ایک ایسے پاکستان کا نقشہ کھینچا ہے جس میں آئینی ارتقاء کے مرحلے کا آغاز ہو چکا تھا،مجھے کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ وہ پاکستان کیسا تھا اور اُس وقت کے لوگوں کا نظریہ کیا تھا اور آج کا پاکستان کیسا ہے،میں نے اِس ناول کو لکھنے کے لیے  پرانے قوانین سے لے کر گاڑیوں کے ماڈل اور ٹیکنالوجی کی چیزوں  تک کا مطالعہ کیا ہے۔۔یہ میری covid-19 کی productivityتھی اور میں نے اپنا covid-19 اِس کہانی کو تیار کرنے میں صرف کیا ہے۔

سوال نمبر  تینتیس :

شاذ کیا واقعی psychopath تھا ؟

جواب:

اُسے سر پر گولی لگنے کی وجہ سے نفسیاتی مسائل تھے جسے ہاجرہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اِس لیے اُسے لگتا تھا کہ وہ  psychopath  تھا۔

سوال نمبر چونتیس:

یہ شاذ کو اپنے ایل۔ایل۔بی پر اتنا  فخر نہیں تھا جتنا اپنے  بی۔اے پر اور ہاجرہ کو اپنے ایل۔ایل۔ایم کرمنالوجی پر  !

جواب:اُس زمانے میں بی۔اے کی بہت اہمیت تھی اور  ایل۔ایل۔ایم کرمنالوجی بھی ایک نیا پروگرام تھا۔۔۔

سوال نمبر پینتیس:

نجمین میں آپ  گھر میں پالتو کتا رکھنے کے خلاف تھیں لیکن عالمِ رویا میں آپ نے سلیمان کو کتے رکھنے کا شوقین دکھایا ہے !

جواب:  عالمِ رویا ایک ایسا ناول تھا جس میں ہم یہ نہیں سوچ سکتے تھے کہ  کیا ہونا چاہیے اور کیسا ہونا چاہیے،برفی وہی کتا تھا جس نے کشمیری خاندان کے افراد کو دو مرتبہ اغوا ہونے سے بچایا ہے۔۔یہ ایک مافیہ بیسڈ ناول تھا اور اِس میں بہت سے اصول ٹوٹے ہیں۔یہ کہانی ججمنٹل ہو کر یا تعصب میں آ کر پڑھنے والی کہانی نہیں ہے اور اگر آپ اپنی منفی جانچ کا چشمہ اُتار کر اِس کہانی کو نہیں پڑھ سکتے تو

  I am sorry you will not be welcomed in Alam-e-Roya

آپ کو اِس کہانی میں سب کو معاف کرنا ہو گا عبد التواب سے لے کر سردار تک کو اور جو اُنہیں نہیں معاف کر سکتا شاید وہ کبھی خود کو بھی معاف نہ کر سکے  ہم اپنے پاک ہونے کی گواہی  نہیں دے سکتے  اور جو دے سکتا ہے اُس کے لیے ایک ہی ہدایت Never say the last word !

 

سوال نمبر چھتیس:

نئے لکھنے والوں کے لیے کوئی ٹِپ ؟

جواب: لفاظی کم کیا کریں اور ایکشن زیادہ کیونکہ ارسطو کا کہنا ہے     

plot is the kernel of story.

 

سوال نمبر سینتیس:

آپ poetic justice پر یقین نہیں رکھتیں اِس کا ہم کیا مطلب اخذ کریں ؟ عالمِ رویا پڑھتے مجھے بعض جگہ لگا کہ آپ جمہوریت کے حوالے سے پر امید ہیں پھر ایک طرف آپ آمریت کے زمانے کی بات کرتی ہیں اور اُس میں جمہوریت کے خلاف بات کرتی ہیں لیکن آپ آمریت کو نا پسند کرتی ہیں لیکن آمریت کے زمانے میں پاکستان کی معاشی ترقی کی بات کرتی ہیں ؟

جواب:

میں نے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہا ہے کوئی بلیم گیم کھیل کر کسی ایک پر الزامات نہیں  لگائے۔میں نے شاذکے بحرین جانے سے قبل ہاجرہ اور شاذ کے ڈائلوگ میں پاکستان کی آئینی تاریخ آپ کے سامنے رکھ دی ہے فیصلہ کرنے والے اب قارئین ہیں کہ اُنہیں اب ساری زندگی بلیم گیم کھیلنی ہے یا  کسی پبلک فگر سے poetic جسٹس کی امیدیں لگانی ہیں یا  حقیقت  کو قبول کرنا ہے ۔رائٹر کا کام کبھی بھی مسئلے کا حل دینا نہیں ہوتا رائٹر کا کام معاشرے اور سسٹم کی عکاسی کرنا ہوتا ہے جو میں نے کر دی باقی کا کام اپ کا ہے کہ آپ اِس سے کیا سیکھتے ہیں !"

 

*********

 

یہیں پر میں سوالات کے سلسلے کا اختتام کرتی ہوں۔۔یوں تو مجھ سے بہت سے سوالات پوچھے گئے تھے پر میں نے صرف اُنہی سوالات کے جواب دیئے جن کے جواب ناول میں  موجود نہیں تھے  اور وہ  کچھ اس قسم کے  سوال تھے جو ایک قاری کے ذہن   میں کسی قسم کی اُلجھن  پیدا کر سکتے تھے   اگر مزید آپ کے کوئی سوالات ہیں  تو آپ مجھے میرے آفیشل پیج یا پیج پر موجود میری  ای۔میل پر اپنے سوالات میل کر سکتے ہیں۔۔دعاؤں میں یاد رکھیئے گا  اور اپنا بہت خیال رکھیئے گا اِسی کے ساتھ میں آپ سے اجازت لیتی ہوں  اللہ حافظ !! 

-تحریم ارشد

 





 

Tuesday, 26 January 2021

شاذ ہاجرہ اور ۱۹۹۰ کی خط و کتابت






"دلم آرا !!"

"مجھے یہ سُن کر خوشی ہوئی کہ تمہیں پارٹ ٹائم نوکری مل گئی ہے اور تم اپنے پیروں پر کھڑی ہونے لگی ہو، یقین کرو جب سے میں نے یہ  خبر سُنی ہے  کہ تم پردیس میں تعلیم کے ساتھ کام کر کے اپنا خرچہ اُٹھا رہی ہو تب سے میں حد قدر فخر محسوس کر رہا ہوں۔۔میری دعا ہے۔۔تمہارے ہاتھ کبھی بے روزگار نہ ہوں۔۔اِن کے پاس ہمیشہ کرنے کو کام ہو تمہاری جیب کبھی خالی نہ ہو اِس میں ہمیشہ ایک یا دو سکے ہوں۔۔تمہاری کھڑکی میں صبح کی پہلی کرن اُمید لے کر آئے ۔تمہاری دیکھی ہوئی  ہر بارش تمہیں قوس قزح کا نظارہ  کروا کر  جائے۔۔تمہارے ساتھ ہمیشہ کسی دوست کا ساتھ ہو اور تم مجھے تب تک خط لکھو جب تک تم میرے پاس واپس نہ لوٹ آؤ۔۔شاذ۔۔"


 


"خاتون قلبم !"

"اگر فیری ٹیلز حقیقت میں  ہوتیں تو میں آدھی رات کو صرف تمہیں دیکھنے کے لیے، چلتے چاند کی دھند پر چلتے ہوئے  تمہاری کھڑکی میں آتا۔ ۔ ۔ کدو سے سات گھوڑوں کی سواری بنا کر تمہاری دل جوئی کرتا۔۔اگر تمہارے ساتھ بھاگ جانے کا اختیار ہوتا تو میں جنگل میں گم ہونا پسند کرتا۔۔کیونکہ مجھے یقین ہے ہم ایک ساتھ  ہر طرح کی  مشکل سے نکل سکتے ہیں۔۔ہم ساتھ ہوں تو سب کر سکتے ہیں۔۔اگر یہ کوئی فیری ٹیل ہوتی تو میں اپنےٹوٹے دل کے ٹکرے تمہاری راہ میں چھوڑ کر جاتا اِس امید سے کہ  تم اُنہیں اکٹھا کر کے میرے پاس واپس آؤ گی اور  اُنہیں جوڑ دو گی ،میری زندگی میں تمہاری موجودگی سے بڑا عالم رویا اور کوئی نہیں۔۔محبت پر بہت سی کہانیاں لکھی گئیں مگر ہماری کہانی عالمِ رویا نہیں پھر بھی یہ میری من پسندیدہ ہے اِس لیے کیونکہ میں اُمید کرتا ہوں اختتام میں یہ عالمِ رویا ہو گی۔۔وہی عالمِ رویا جس کے متعلق  ادیب لکھتے ہیں۔شاذ۔۔"





"عزیزم ہاجرم !"

(میری عزیز میری ہاجرہ !)


"مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم خیریت سے انگلستان پہنچ گئی ہو اور اِس سے زیادہ خوشی تمہارا خط موصول ہونے پر ہوئی۔۔تمہیں گئے ہوئے ابھی صرف دو ہفتے ہوئے ہیں اور میں اب ہی سے تمہارا انتظار کرنے لگا ہوں۔۔میری دُعا ہے  تمہارا وہ راستہ جو مجھ تک پہنچے جلد طے ہو۔اِس سفر میں ہوائیں ہمیشہ تمہاری کمر بستہ رکھیں مغرب کی سردی میں دھوپ تمہارا دل  میرے لیے کبھی سرد نہ پڑنے دے۔۔وہاں کی بارش تمہارے لیے خوش آئند ہو اور جب تک ہم دوبارہ ملیں اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔۔شاذ۔۔"



"مرد قلب من !"

لبوں پر مسکراہٹ در آئی۔

"تم نے مجھے بہت  خط لکھے  جو میں وقت پر کبھی پڑھ نہیں پائی۔۔میں نے بھی تمہیں بہت سے خط لکھے جو مجھ سے لکھ کر مجھ پر ختم ہو گئے۔۔یہ پہلا خط ہے جو  میں تمہیں لکھ رہی ہوں یہ جانے بغیر  کہ میں اِسے تم تک  کیسے  پہنچاؤں گی۔۔اُمید کرتی ہوں تم جہاں بھی  ہو  اللہ کی امان میں ہو۔بہار کی رُت ہر سو چھائی ہے، سردیوں  کا اختتام ہو گیا ہے میں نے ایک خرگوش دیکھا ہے جو  سر سبز و شاداب اور خوشگوار بہار کا  پیغام لے کر آیا ہے۔۔لندن کے باغوں میں ہرن   بڑی  روانی سے بے پرواہ ہو کر  گشت کر رہے ہیں۔۔بہار    موسمِ سرماں کے  صیاد کا قلع قمع کر چکی ہے۔۔ تھیمیز میں ہنس راج کا راج ہے۔۔موسم گرماں کی آمد ہے۔۔گرماں نے آتے ہی میری گود میں تین قسم کی بیریاں ڈالی ہیں۔"

(انگلستان میں گرمیوں میں بہت قسم کی بیریاں لگا کرتی تھیں۔)

"kensington گارڈن میں پیٹر کا مجسمہ پر امید ہے۔۔پریوں نے اُس سے وعدہ کیا ہے وہ اُسے اُس کی ماں کے پاس لوٹا کر آئیں گی۔۔ پیٹر نے بڑھنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔اُس کی بڑھنے کی حرص تھم چکی ہے۔۔وہ اپنی استطاعت کے مطابق جینا سیکھ چکا ہے۔۔موسم کا چکر بہار  کے مطابق چل رہا ہے۔۔  تم یہ بتاؤ سفید خرگوش تمہیں  عالمِ رویا میں کب لے کر آئے گا ؟ کوئی زبردستی نہیں۔۔کوئی زور نہیں۔۔۔مگر گزارش ہے سرماں سے پہلے آ جانا۔" اُس کی زچگی موسمِ سرماں میں تھی۔۔

"سرماں میں رنگ رنگ کے   پھول اور پھل نہیں ہوں گے۔۔مگر میری آخری اُمید Mistletoe پر ہے۔۔بارش ہو یا  خزاں ہو۔۔ تمہارا انتظار میرے لیے Mistletoe کے  سدا  بہار کے پھل جیسا ہے۔۔میں اِس امید سے تمہارا تب انتظار کروں گی کہ ایک دن مجھے تمہارا انتظار نہ کرنا پڑے۔۔میں عالم ِرویا پر یقین نہیں رکھتی تھی پر جینے کے لیے کچھ دیر کے لیے صحیح مجھے عالمِ رویا میں جینا پڑ رہا ہے۔۔اِس جہاں میں جینا بھی آسان نہیں۔۔ یہ ایک احساس ہے  !! سونے اور جاگنے کے درمیان کا  احساس ،جہاں میں اپنے خوابوں کو سجا رہی ہوں کہ ایک دن تم آؤ گے  یہاں رہنا اور  خواب دیکھنا  کبھی جہنم  میں رہنے جیسا  بھی لگتا ہے اور کبھی عالمِ رویا جیسا بھی۔۔خواب امید سے دیکھے جاتے ہیں پر جب امید ٹوٹ جائے  تو  یہ خواب  اذیت  بن جاتے ہیں۔۔میری اُمید ہر روز ٹوٹتی ہے  اور   ہر روز بڑھتی ہے۔۔۔لیکن میں اِس کے باوجود  تمہارا انتظار  کروں گی لہٰذا مجھے کبھی الوداع نہیں کہنا۔۔ اچھا تمہیں پتا ہے۔اب میں یہ سوال بھی نہیں کرتی میں کیوں پیدا ہوئی ؟میں برگد کا تلخ اور خشک پیر تھی۔۔جسے بیریوں نے میٹھا کر دیا ہے۔۔۔زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔اگر میرا وجود نہ ہوتا مجھے یہ بیریاں نہ لگتیں۔۔زندگی کی چاشنی سے میں ناواقف رہتی۔۔میں یہ بھی نہیں  سوچتی  کہ محبت کیوں کرنی چاہیے ؟ شادی کیوں کرنی چاہیے ؟ اور یونہی ایک بوریت بھری زندگی کیوں گزارنی چاہیے ؟  شادی کے بعد کی زندگی مشکل ہے۔۔کنواری لڑکیاں یہی سوچتی ہیں۔میں اُن سے اِس موضوع پر مباحثہ نہیں کرتی۔۔کیونکہ میں جانتی ہوں جب  وہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھیں گی تو وہ خود جان جائیں گی یہ زندگی کتنی خوبصورت ہے اپنی اور اپنی اُس زندگی کی تمام خامیوں سمیت۔۔ارنسٹ ہونے کی اہمیت ڈرامہ مجھے اب بھی بہت پسند ہے۔۔۔میں اب بھی وہ ڈرامہ ہزار مرتبہ دیکھ سکتی ہوں۔۔بعض دفعہ کچھ  کہانیاں  پڑھنا تب بھی اچھا لگتا ہے جب آپ جانتے ہوں کہ  اُن کا اختتام کیا ہے۔۔۔میری اور تمہاری کہانی بھی ایسی ہے۔۔جسے تمام تر معموں کے باوجود میں دوبارہ سے شروع کرنا چاہوں گی اور ماضی میں جانا چاہوں گی۔۔تمہارا انتظار کرتی رہوں گی کیونکہ میں نے کسی معمولی محبت کا انتظار نہیں کیا۔۔میں ہماری محبت کی منتظر ہوں جو مجھے عالم ِرویا میں لے جائے گی ،جس کی ہر چیز خاص ہو گی  اُس میں درد بھی ہو گا پر اُس کا پھل بہت میٹھا ہو گا ۔۔اپنے الفاظ اور جذبات کبھی بیان نہیں کر سکی۔۔کیونکہ ایک گہری سوچ رکھنے والا غلط فہمی کے خیالات دینے سے خائف رہتا ہے۔۔تم وہی ہو  بدلی میں ہوں۔۔میری محبت پھل دار پیڑ بننے کے بعد تھوڑی بدل گئی ہے۔۔۔نہیں۔۔بڑھ گئی ہے۔۔یا شاید۔۔۔یہ پھل مجھے تم سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے کی وجہ بنے ہیں۔۔۔ میں لفاظی نہیں کرتی تھی۔۔۔پر اب کرنے لگی ہوں۔لوگوں سے ملنے لگی ہوں۔۔۔تم بھی ایسے ہی ہو۔۔۔"

وہ لفاظی کرنے والا آدمی نہیں تھا پر اپنے کہے لفظوں پر پورا اُترنے والا آدمی تھا۔

"اپنے لفظوں پر پورے اُترو اور واپس آ جاؤ۔۔"

وہ چند لمحے رُکی۔۔ذہن میں مزید باتیں آئیں۔۔

"میری وارڈروب کچھ زیادہ  نہیں بدلی  لیکن میرے لیے تنگ ہو رہی ہے۔۔"

اُس کی پلکیں اُٹھیں۔۔اُس نے بک شیلف پر مکڑی کے جالے پر مکڑی کو لٹکتے ہوئے دیکھا۔۔وہ اُسے اپنی جانب کھینچتی۔وہ نگاہیں جھکا لیتی۔بار بار پلکیں اُٹھتیں۔۔وہ اپنے جالے سے نیچے اُترنے کی کوشش کر رہی تھا۔جالا کمزور پڑ رہا تھا۔۔۔وہ ایک طرف لٹک کر جھول رہی تھئ۔۔۔۔اُس نے اُسے پھر سے دیکھا پر  اب وہ سر جھکا کر لکھنے لگی۔۔۔

"اب میں اپنی  سفاکی میں  ایک حدت محسوس کرتی ہوں۔۔۔"

وہ  جالے سے لٹکتی ہوئی  مکڑی اُسے اپنی جانب پھر سے  کھینچ رہی تھی۔

"اِس لاپرواہ سی دنیا  میں میں انسانوں کے احساسات کو محسوس کرنے لگی ہوں۔۔تم نفسیاتی احساسات کے مرض   میں مبتلا تھے  اور میں  جذباتیت کے۔۔۔" اُس کی پلکیں اُٹھیں۔جالا لٹک رہا تھا پر 

مکڑی وہاں نہیں تھی۔۔اُس نے افسوس سے لب دبائے اور پھر پلکیں جھکا لیں۔۔ہر سو خاموشی چھائی تھی۔۔۔قدموں کی آواز پر اُس نے لڑکیوں کو کتابیں  تلاشتے ہوئے  دیکھا۔۔۔اُس نے چند لمحوں کے لیے قلم چھوڑ دیا۔۔۔ایک نظر اپنے خط کی جانب دیکھا اور پھر خود کو۔

وہ وہی تھی۔جو کم عمری  میں خود کشی کے لیے دوڑتی جا رہی تھی۔۔سائیکل والا نوجوان اُس کے پیچھے تھا۔۔

"ہاجرہ ہاجرہ !"

فریدہ خانم اُس کے گھر کے باہر اُس کی وجہ سے آئی تھیں۔۔

"بخت رواں اپنے پوتی کو سنبھالو !"

پھر  اُسے نیلوفر کی اُس کی زندگی میں پیدا کی رکاوٹیں یاد آنے لگیں ۔۔

"ابا جی اِس سے پہلے یہ کچھ کرے اِس کی شادی کروا دیں !"

اُس نے یادوں کے پہیے کو پیچھے گھمایا۔۔کم سن بچی اپنے بھائی کو سینے سے لگائے  ہوئے کھڑی تھی۔پولیس اُس کے دا جی اور دادی سے باز پرس کر رہے تھے۔اُس کے باپ اور چچا کے سبب اُنہیں تھانے لے جانے کی ضد کر رہے تھے۔۔پولیس افسران کی اُس پر  نگاہیں اُسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں۔۔۔

پھر اُسے لوگوں کی اُس کو رسوا کر دینے والی نگاہیں بھی نظر آنے لگیں۔

اُس کے شیر خوار چھوٹے  بھائی کی آنکھیں مدہوشی میں گھوم رہی تھیں۔۔

وہ اُسے اپنی  گود میں اُٹھائے بخت رواں سے پوچھ رہی تھی۔۔

"پتا نہیں زمین پر کیسے گر گئی ؟  اور کیسے اُٹھا کر کھا لی   اِس نے ؟ ہوش میں نہیں آ رہا۔رنگ پیلا پڑ گیا ہے !"

اُس کی ماں کا سفید پڑتا مردہ چہرہ۔۔۔دھندلی یادیں۔۔۔

ذمے داریاں، تلخیاں  اور مجبوریاں اور اُنہیں سہنے والی وہ۔۔اُس نے ایک گہری سانس لی۔قلم اُٹھایا۔۔

"میں نے اپنے ماضی کے ہر دکھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے ،میں ہر وقت اللہ سے ایک دعا کرتی تھی۔۔"

اُسے باز گشت سُنائی دیں۔۔

"اللہ تُو حق تیرا وعدہ حق،تیری دُنیا حق،ازل سے ابد تک جو تُو نے بیان کیا وہ حق۔۔ تُجھے تیرے حق ہونے کا واسطہ مجھے تو دکھا دے حق۔۔"

"مجھے اللہ نے حق دکھا دیا ہے !"

"میری دُعا سُن لی گئی ہے اور ہر دُعا سُن لی جاتی ہے۔۔مجھےاب  لگنے لگا ہے اللہ میری سُنتا ہے ایک دعا اور کرتی ہوں ایسی کوئی سیاہی ہی نہ ہو جو تمہارے نصیب میں اب کوئی غم اور ضرر لکھے۔۔۔ایسی کوئی مٹی نہ ہو جسے تم سونا نہ کر سکو۔۔ایسی کوئی مجبوری نہ ہو جو اب تمہیں مجھ سی دور رکھ سکے۔۔ایسا کوئی پانی نہ ہو جو تمہاری آنکھوں سے اشک بن کر ٹوٹے۔۔ایسی کوئی خوشی نہ ہو جو تمہیں مل نہ سکے۔۔۔۔میں نے دعا مانگی ہے اللہ اُس کے فرشتے گواہ ہیں۔۔یہ خط۔۔یہ قلم، یہ سیاہی، میری روح  اور میرا دل گواہ ہے جو لکھ رہی ہوں میری وفا ہے ۔خدا کرے ایسی کوئی زندگی نہ ہو جس میں اب تم اور میں ساتھ نہ ہوں۔۔اللہ نے ہمیں بیٹے دیئے تو انشاء اللہ اُنہیں آدابِ فرزندِ ابراھیمی سکھائیں گے اللہ نے بیٹی دی تو  ہم  اُسے بھی بہادر اور اپنے مردوں کے شانہ با شانہ چلنے والی عورت بنائیں گے  !!   بہار اپنے جوبن پر ہے ہاجرہ صحرا کو نخلستان بنا چکی ہے میٹھے چشمے پھوٹنے  والے ہیں اور غزال الماس آنکھیں تمہاری منتظر ہیں جلدی آنا !

  فقط تمہاری ہاجرہ"

وہ قلم بند کرنے لگی۔۔۔صفحہ مکمل ہو چکا تھا۔۔ وہ ایک ایسا  خط لکھ چکی تھی جسے ارسال کوئی پوسٹ  آفز نہیں کر وا سکتا تھا وہ ایک ایسا خط تھا جسے ارسال کا طریقہ محض دل بہ دل راہ دارہ تھا۔۔




















Gulehri Episode 9

  Gulehri Episode 9