Tuesday, 26 January 2021

شاذ ہاجرہ اور ۱۹۹۰ کی خط و کتابت






"دلم آرا !!"

"مجھے یہ سُن کر خوشی ہوئی کہ تمہیں پارٹ ٹائم نوکری مل گئی ہے اور تم اپنے پیروں پر کھڑی ہونے لگی ہو، یقین کرو جب سے میں نے یہ  خبر سُنی ہے  کہ تم پردیس میں تعلیم کے ساتھ کام کر کے اپنا خرچہ اُٹھا رہی ہو تب سے میں حد قدر فخر محسوس کر رہا ہوں۔۔میری دعا ہے۔۔تمہارے ہاتھ کبھی بے روزگار نہ ہوں۔۔اِن کے پاس ہمیشہ کرنے کو کام ہو تمہاری جیب کبھی خالی نہ ہو اِس میں ہمیشہ ایک یا دو سکے ہوں۔۔تمہاری کھڑکی میں صبح کی پہلی کرن اُمید لے کر آئے ۔تمہاری دیکھی ہوئی  ہر بارش تمہیں قوس قزح کا نظارہ  کروا کر  جائے۔۔تمہارے ساتھ ہمیشہ کسی دوست کا ساتھ ہو اور تم مجھے تب تک خط لکھو جب تک تم میرے پاس واپس نہ لوٹ آؤ۔۔شاذ۔۔"


 


"خاتون قلبم !"

"اگر فیری ٹیلز حقیقت میں  ہوتیں تو میں آدھی رات کو صرف تمہیں دیکھنے کے لیے، چلتے چاند کی دھند پر چلتے ہوئے  تمہاری کھڑکی میں آتا۔ ۔ ۔ کدو سے سات گھوڑوں کی سواری بنا کر تمہاری دل جوئی کرتا۔۔اگر تمہارے ساتھ بھاگ جانے کا اختیار ہوتا تو میں جنگل میں گم ہونا پسند کرتا۔۔کیونکہ مجھے یقین ہے ہم ایک ساتھ  ہر طرح کی  مشکل سے نکل سکتے ہیں۔۔ہم ساتھ ہوں تو سب کر سکتے ہیں۔۔اگر یہ کوئی فیری ٹیل ہوتی تو میں اپنےٹوٹے دل کے ٹکرے تمہاری راہ میں چھوڑ کر جاتا اِس امید سے کہ  تم اُنہیں اکٹھا کر کے میرے پاس واپس آؤ گی اور  اُنہیں جوڑ دو گی ،میری زندگی میں تمہاری موجودگی سے بڑا عالم رویا اور کوئی نہیں۔۔محبت پر بہت سی کہانیاں لکھی گئیں مگر ہماری کہانی عالمِ رویا نہیں پھر بھی یہ میری من پسندیدہ ہے اِس لیے کیونکہ میں اُمید کرتا ہوں اختتام میں یہ عالمِ رویا ہو گی۔۔وہی عالمِ رویا جس کے متعلق  ادیب لکھتے ہیں۔شاذ۔۔"





"عزیزم ہاجرم !"

(میری عزیز میری ہاجرہ !)


"مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم خیریت سے انگلستان پہنچ گئی ہو اور اِس سے زیادہ خوشی تمہارا خط موصول ہونے پر ہوئی۔۔تمہیں گئے ہوئے ابھی صرف دو ہفتے ہوئے ہیں اور میں اب ہی سے تمہارا انتظار کرنے لگا ہوں۔۔میری دُعا ہے  تمہارا وہ راستہ جو مجھ تک پہنچے جلد طے ہو۔اِس سفر میں ہوائیں ہمیشہ تمہاری کمر بستہ رکھیں مغرب کی سردی میں دھوپ تمہارا دل  میرے لیے کبھی سرد نہ پڑنے دے۔۔وہاں کی بارش تمہارے لیے خوش آئند ہو اور جب تک ہم دوبارہ ملیں اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔۔شاذ۔۔"



"مرد قلب من !"

لبوں پر مسکراہٹ در آئی۔

"تم نے مجھے بہت  خط لکھے  جو میں وقت پر کبھی پڑھ نہیں پائی۔۔میں نے بھی تمہیں بہت سے خط لکھے جو مجھ سے لکھ کر مجھ پر ختم ہو گئے۔۔یہ پہلا خط ہے جو  میں تمہیں لکھ رہی ہوں یہ جانے بغیر  کہ میں اِسے تم تک  کیسے  پہنچاؤں گی۔۔اُمید کرتی ہوں تم جہاں بھی  ہو  اللہ کی امان میں ہو۔بہار کی رُت ہر سو چھائی ہے، سردیوں  کا اختتام ہو گیا ہے میں نے ایک خرگوش دیکھا ہے جو  سر سبز و شاداب اور خوشگوار بہار کا  پیغام لے کر آیا ہے۔۔لندن کے باغوں میں ہرن   بڑی  روانی سے بے پرواہ ہو کر  گشت کر رہے ہیں۔۔بہار    موسمِ سرماں کے  صیاد کا قلع قمع کر چکی ہے۔۔ تھیمیز میں ہنس راج کا راج ہے۔۔موسم گرماں کی آمد ہے۔۔گرماں نے آتے ہی میری گود میں تین قسم کی بیریاں ڈالی ہیں۔"

(انگلستان میں گرمیوں میں بہت قسم کی بیریاں لگا کرتی تھیں۔)

"kensington گارڈن میں پیٹر کا مجسمہ پر امید ہے۔۔پریوں نے اُس سے وعدہ کیا ہے وہ اُسے اُس کی ماں کے پاس لوٹا کر آئیں گی۔۔ پیٹر نے بڑھنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔اُس کی بڑھنے کی حرص تھم چکی ہے۔۔وہ اپنی استطاعت کے مطابق جینا سیکھ چکا ہے۔۔موسم کا چکر بہار  کے مطابق چل رہا ہے۔۔  تم یہ بتاؤ سفید خرگوش تمہیں  عالمِ رویا میں کب لے کر آئے گا ؟ کوئی زبردستی نہیں۔۔کوئی زور نہیں۔۔۔مگر گزارش ہے سرماں سے پہلے آ جانا۔" اُس کی زچگی موسمِ سرماں میں تھی۔۔

"سرماں میں رنگ رنگ کے   پھول اور پھل نہیں ہوں گے۔۔مگر میری آخری اُمید Mistletoe پر ہے۔۔بارش ہو یا  خزاں ہو۔۔ تمہارا انتظار میرے لیے Mistletoe کے  سدا  بہار کے پھل جیسا ہے۔۔میں اِس امید سے تمہارا تب انتظار کروں گی کہ ایک دن مجھے تمہارا انتظار نہ کرنا پڑے۔۔میں عالم ِرویا پر یقین نہیں رکھتی تھی پر جینے کے لیے کچھ دیر کے لیے صحیح مجھے عالمِ رویا میں جینا پڑ رہا ہے۔۔اِس جہاں میں جینا بھی آسان نہیں۔۔ یہ ایک احساس ہے  !! سونے اور جاگنے کے درمیان کا  احساس ،جہاں میں اپنے خوابوں کو سجا رہی ہوں کہ ایک دن تم آؤ گے  یہاں رہنا اور  خواب دیکھنا  کبھی جہنم  میں رہنے جیسا  بھی لگتا ہے اور کبھی عالمِ رویا جیسا بھی۔۔خواب امید سے دیکھے جاتے ہیں پر جب امید ٹوٹ جائے  تو  یہ خواب  اذیت  بن جاتے ہیں۔۔میری اُمید ہر روز ٹوٹتی ہے  اور   ہر روز بڑھتی ہے۔۔۔لیکن میں اِس کے باوجود  تمہارا انتظار  کروں گی لہٰذا مجھے کبھی الوداع نہیں کہنا۔۔ اچھا تمہیں پتا ہے۔اب میں یہ سوال بھی نہیں کرتی میں کیوں پیدا ہوئی ؟میں برگد کا تلخ اور خشک پیر تھی۔۔جسے بیریوں نے میٹھا کر دیا ہے۔۔۔زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔اگر میرا وجود نہ ہوتا مجھے یہ بیریاں نہ لگتیں۔۔زندگی کی چاشنی سے میں ناواقف رہتی۔۔میں یہ بھی نہیں  سوچتی  کہ محبت کیوں کرنی چاہیے ؟ شادی کیوں کرنی چاہیے ؟ اور یونہی ایک بوریت بھری زندگی کیوں گزارنی چاہیے ؟  شادی کے بعد کی زندگی مشکل ہے۔۔کنواری لڑکیاں یہی سوچتی ہیں۔میں اُن سے اِس موضوع پر مباحثہ نہیں کرتی۔۔کیونکہ میں جانتی ہوں جب  وہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھیں گی تو وہ خود جان جائیں گی یہ زندگی کتنی خوبصورت ہے اپنی اور اپنی اُس زندگی کی تمام خامیوں سمیت۔۔ارنسٹ ہونے کی اہمیت ڈرامہ مجھے اب بھی بہت پسند ہے۔۔۔میں اب بھی وہ ڈرامہ ہزار مرتبہ دیکھ سکتی ہوں۔۔بعض دفعہ کچھ  کہانیاں  پڑھنا تب بھی اچھا لگتا ہے جب آپ جانتے ہوں کہ  اُن کا اختتام کیا ہے۔۔۔میری اور تمہاری کہانی بھی ایسی ہے۔۔جسے تمام تر معموں کے باوجود میں دوبارہ سے شروع کرنا چاہوں گی اور ماضی میں جانا چاہوں گی۔۔تمہارا انتظار کرتی رہوں گی کیونکہ میں نے کسی معمولی محبت کا انتظار نہیں کیا۔۔میں ہماری محبت کی منتظر ہوں جو مجھے عالم ِرویا میں لے جائے گی ،جس کی ہر چیز خاص ہو گی  اُس میں درد بھی ہو گا پر اُس کا پھل بہت میٹھا ہو گا ۔۔اپنے الفاظ اور جذبات کبھی بیان نہیں کر سکی۔۔کیونکہ ایک گہری سوچ رکھنے والا غلط فہمی کے خیالات دینے سے خائف رہتا ہے۔۔تم وہی ہو  بدلی میں ہوں۔۔میری محبت پھل دار پیڑ بننے کے بعد تھوڑی بدل گئی ہے۔۔۔نہیں۔۔بڑھ گئی ہے۔۔یا شاید۔۔۔یہ پھل مجھے تم سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے کی وجہ بنے ہیں۔۔۔ میں لفاظی نہیں کرتی تھی۔۔۔پر اب کرنے لگی ہوں۔لوگوں سے ملنے لگی ہوں۔۔۔تم بھی ایسے ہی ہو۔۔۔"

وہ لفاظی کرنے والا آدمی نہیں تھا پر اپنے کہے لفظوں پر پورا اُترنے والا آدمی تھا۔

"اپنے لفظوں پر پورے اُترو اور واپس آ جاؤ۔۔"

وہ چند لمحے رُکی۔۔ذہن میں مزید باتیں آئیں۔۔

"میری وارڈروب کچھ زیادہ  نہیں بدلی  لیکن میرے لیے تنگ ہو رہی ہے۔۔"

اُس کی پلکیں اُٹھیں۔۔اُس نے بک شیلف پر مکڑی کے جالے پر مکڑی کو لٹکتے ہوئے دیکھا۔۔وہ اُسے اپنی جانب کھینچتی۔وہ نگاہیں جھکا لیتی۔بار بار پلکیں اُٹھتیں۔۔وہ اپنے جالے سے نیچے اُترنے کی کوشش کر رہی تھا۔جالا کمزور پڑ رہا تھا۔۔۔وہ ایک طرف لٹک کر جھول رہی تھئ۔۔۔۔اُس نے اُسے پھر سے دیکھا پر  اب وہ سر جھکا کر لکھنے لگی۔۔۔

"اب میں اپنی  سفاکی میں  ایک حدت محسوس کرتی ہوں۔۔۔"

وہ  جالے سے لٹکتی ہوئی  مکڑی اُسے اپنی جانب پھر سے  کھینچ رہی تھی۔

"اِس لاپرواہ سی دنیا  میں میں انسانوں کے احساسات کو محسوس کرنے لگی ہوں۔۔تم نفسیاتی احساسات کے مرض   میں مبتلا تھے  اور میں  جذباتیت کے۔۔۔" اُس کی پلکیں اُٹھیں۔جالا لٹک رہا تھا پر 

مکڑی وہاں نہیں تھی۔۔اُس نے افسوس سے لب دبائے اور پھر پلکیں جھکا لیں۔۔ہر سو خاموشی چھائی تھی۔۔۔قدموں کی آواز پر اُس نے لڑکیوں کو کتابیں  تلاشتے ہوئے  دیکھا۔۔۔اُس نے چند لمحوں کے لیے قلم چھوڑ دیا۔۔۔ایک نظر اپنے خط کی جانب دیکھا اور پھر خود کو۔

وہ وہی تھی۔جو کم عمری  میں خود کشی کے لیے دوڑتی جا رہی تھی۔۔سائیکل والا نوجوان اُس کے پیچھے تھا۔۔

"ہاجرہ ہاجرہ !"

فریدہ خانم اُس کے گھر کے باہر اُس کی وجہ سے آئی تھیں۔۔

"بخت رواں اپنے پوتی کو سنبھالو !"

پھر  اُسے نیلوفر کی اُس کی زندگی میں پیدا کی رکاوٹیں یاد آنے لگیں ۔۔

"ابا جی اِس سے پہلے یہ کچھ کرے اِس کی شادی کروا دیں !"

اُس نے یادوں کے پہیے کو پیچھے گھمایا۔۔کم سن بچی اپنے بھائی کو سینے سے لگائے  ہوئے کھڑی تھی۔پولیس اُس کے دا جی اور دادی سے باز پرس کر رہے تھے۔اُس کے باپ اور چچا کے سبب اُنہیں تھانے لے جانے کی ضد کر رہے تھے۔۔پولیس افسران کی اُس پر  نگاہیں اُسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں۔۔۔

پھر اُسے لوگوں کی اُس کو رسوا کر دینے والی نگاہیں بھی نظر آنے لگیں۔

اُس کے شیر خوار چھوٹے  بھائی کی آنکھیں مدہوشی میں گھوم رہی تھیں۔۔

وہ اُسے اپنی  گود میں اُٹھائے بخت رواں سے پوچھ رہی تھی۔۔

"پتا نہیں زمین پر کیسے گر گئی ؟  اور کیسے اُٹھا کر کھا لی   اِس نے ؟ ہوش میں نہیں آ رہا۔رنگ پیلا پڑ گیا ہے !"

اُس کی ماں کا سفید پڑتا مردہ چہرہ۔۔۔دھندلی یادیں۔۔۔

ذمے داریاں، تلخیاں  اور مجبوریاں اور اُنہیں سہنے والی وہ۔۔اُس نے ایک گہری سانس لی۔قلم اُٹھایا۔۔

"میں نے اپنے ماضی کے ہر دکھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے ،میں ہر وقت اللہ سے ایک دعا کرتی تھی۔۔"

اُسے باز گشت سُنائی دیں۔۔

"اللہ تُو حق تیرا وعدہ حق،تیری دُنیا حق،ازل سے ابد تک جو تُو نے بیان کیا وہ حق۔۔ تُجھے تیرے حق ہونے کا واسطہ مجھے تو دکھا دے حق۔۔"

"مجھے اللہ نے حق دکھا دیا ہے !"

"میری دُعا سُن لی گئی ہے اور ہر دُعا سُن لی جاتی ہے۔۔مجھےاب  لگنے لگا ہے اللہ میری سُنتا ہے ایک دعا اور کرتی ہوں ایسی کوئی سیاہی ہی نہ ہو جو تمہارے نصیب میں اب کوئی غم اور ضرر لکھے۔۔۔ایسی کوئی مٹی نہ ہو جسے تم سونا نہ کر سکو۔۔ایسی کوئی مجبوری نہ ہو جو اب تمہیں مجھ سی دور رکھ سکے۔۔ایسا کوئی پانی نہ ہو جو تمہاری آنکھوں سے اشک بن کر ٹوٹے۔۔ایسی کوئی خوشی نہ ہو جو تمہیں مل نہ سکے۔۔۔۔میں نے دعا مانگی ہے اللہ اُس کے فرشتے گواہ ہیں۔۔یہ خط۔۔یہ قلم، یہ سیاہی، میری روح  اور میرا دل گواہ ہے جو لکھ رہی ہوں میری وفا ہے ۔خدا کرے ایسی کوئی زندگی نہ ہو جس میں اب تم اور میں ساتھ نہ ہوں۔۔اللہ نے ہمیں بیٹے دیئے تو انشاء اللہ اُنہیں آدابِ فرزندِ ابراھیمی سکھائیں گے اللہ نے بیٹی دی تو  ہم  اُسے بھی بہادر اور اپنے مردوں کے شانہ با شانہ چلنے والی عورت بنائیں گے  !!   بہار اپنے جوبن پر ہے ہاجرہ صحرا کو نخلستان بنا چکی ہے میٹھے چشمے پھوٹنے  والے ہیں اور غزال الماس آنکھیں تمہاری منتظر ہیں جلدی آنا !

  فقط تمہاری ہاجرہ"

وہ قلم بند کرنے لگی۔۔۔صفحہ مکمل ہو چکا تھا۔۔ وہ ایک ایسا  خط لکھ چکی تھی جسے ارسال کوئی پوسٹ  آفز نہیں کر وا سکتا تھا وہ ایک ایسا خط تھا جسے ارسال کا طریقہ محض دل بہ دل راہ دارہ تھا۔۔




















Friday, 22 January 2021

Aalme roya by Tehreem Arshad Complete Episode PDF

 DOWNLOAD COMPLETE NOVEL

Mediafire Link


Google Drive Link


Alam e roya is a Mafia and Vendetta Based Novel by Writer Tehreem Arshad

She has written four novels 

Aalme roya is her fourth Novel 


Genre of Alam e Roya: Old Era Crime,Revenge,Mafia,Vendetta and Judiciary of Pakistan


Plot Time 1994-1995







































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































Gulehri Episode 9

  Gulehri Episode 9